Poetry 1
قیر بکتاہے کہاں لعل و گہرکے آگے
ہیچ دنیاہے فقیروں کی نظر کے آگے
ہم علمدار ہیں شبیر کے اس پرچم کے
لشکر شام تھا جس کلمہ سر کے آگے
چند خاکوں سے ابھرتی ہوئی تصویروں تک
کتنے منظر ہیں مرے دیدہ ترکے آگے
________________________________________
جس میں روپوش ہوۓ چھوڑ کے مجھ کو ساتھی
میری منزل ہے اس گرد سفر کے آگے
منفرد کتنا تھا اس شخص کا ہرجائی پن
میرے دشمن سے ملا میرے ہی گھر کے آگے
دھجیاں ہاتھ میں تیرے ہیں مرے دامن کی
اورکیا آۓ گا اس خاک بسر کے آ گے
ساری باتیں مجھے کمترسی لگی ہیں جاناں
تیرے پردیس سے آنے کی خبر کے آگے
تیرے مرکز سے ہٹی گرتو بھٹک جاؤںگی
میری دنیا ہے تیرے راہ گزر کے آ گے
ہنسنے والوں میں وہ شامل تھا اسی ساحل پر
ناؤڈوبی تھی جہاں میری بھنور کے آگے
بیس صدیوں میں جہاں آدمی جاپہنچا ہے
اور جاۓ گا کہاں شمس و قمر کے آگے
اسی دہليز کی نسبت سے اٹھائی جاؤں
موت آۓ مجھے یارب اسی در کے آگے
Comments